تحریر: خیال مت شاہ آفریدیتیراہ میدان ایک مرتبہ پھر خونریزی کا مرکز بن گیا۔ حالیہ جھڑپوں میں عسکریت پسندوں نے فورسز پر حملہ کیا، جس کے جواب میں ہونے والی غیر منظم کارروائی نے ایک معصوم شہری اجمل درزی کی جان لے لی اور کئی افراد زخمی ہوئے۔ یہ واقعہ نہ صرف عوام کے لیے ایک بڑا سانحہ ہے بلکہ حکومتی حکمت عملی پر بھی سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے۔ماضی میں حکومت کی جانب سے قیامِ امن کے لیے مذاکراتی جرگے منعقد کیے گئے۔ خیبر ہاؤس میں منعقد ہونے والے جرگے میں کمشنر پشاور ریاض محسود نے وادی تیراہ میں امن کے قیام کا وعدہ کیا تھا۔ اس جرگے میں سیاسی و سماجی قائدین نے واضح طور پر فورسز کی کارروائیوں پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ تاہم بعد میں بالاحصار میں آئی جی ایف سی کے سامنے ہونے والے جرگے میں اصل مسائل کو پیش نہ کیا جا سکا۔ نہ وہاں عوامی نمائندے موجود تھے اور نہ ہی وہ قائدین جو مقامی لوگوں کی صحیح معنوں میں نمائندگی کر سکتے۔یہ جرگے عوام میں اعتماد بحال کرنے میں ناکام رہے، جس کا نتیجہ حالیہ واقعے میں سامنے آیا۔ مارٹر گولوں کا رہائشی علاقوں پر گرنا، گھروں کی تباہی اور شہریوں کے زخمی ہونے کے واقعات فورسز کی غیر پیشہ ورانہ حکمت عملی کو بے نقاب کرتے ہیں۔ ان کارروائیوں نے عوام میں حکومت اور فورسز کے خلاف شدید بے اعتمادی پیدا کر دی ہے، جس کا فائدہ شدت پسندوں کو پہنچ سکتا ہے۔عوامی اعتماد کا بحرانحکومت اور فورسز کی ذمہ داری ہے کہ وہ عام شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔ غیر ضروری اور غیر ہدف شدہ کارروائیاں مقامی لوگوں کو مزید مشکلات سے دوچار کر رہی ہیں۔ تاجروں اور کاروباری طبقے کی سرگرمیاں شدید متاثر ہو رہی ہیں، جس سے علاقائی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہے۔اجمل درزی جیسے معصوم شہری کی شہادت صرف ایک جان کا نقصان نہیں، بلکہ یہ واقعہ عوامی اعتماد کے خاتمے کی علامت ہے۔ جب حکومت عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے تو شدت پسندی کے لیے نرم گوشہ پیدا ہونا ایک فطری عمل ہے۔حل کی ضرورتوادی تیراہ میں قیامِ امن کے لیے حکومت اور فورسز کو فوری اور سنجیدہ اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے:1. نتیجہ خیز مذاکرات: عسکریت پسندوں کے ساتھ مؤثر اور سنجیدہ مذاکرات کیے جائیں۔2. ٹارگیٹڈ آپریشنز: جدید انٹیلیجنس کی مدد سے صرف مخصوص اہداف پر کارروائی کی جائے۔3. عوامی رابطہ: فورسز اور عوام کے درمیان اعتماد بحال کیا جائے۔4. نقصان کا ازالہ: متاثرہ افراد اور تاجروں کے مالی نقصانات کی تلافی کی جائے۔حالیہ سانحہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اگر فوری طور پر مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو عوام میں بے اعتمادی مزید بڑھے گی اور شدت پسندی کے رجحان کو روکنا مشکل ہو جائے گا۔ حکومت اور فورسز کے لیے یہ وقت سنجیدگی اور حکمتِ عملی کے ساتھ آگے بڑھنے کا ہے، تاکہ تیراہ جیسے علاقے دوبارہ امن و ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکیں۔